اس کی ہر بات مرے دل کو روا ہو جائے
وہ مگر اپنی انا سے تو رہا ہو جائے
بات ہم دل کی چھپائیں گے نہیں اب ہرگز
کوئی ہوتا ہے خفا گر تو خفا ہو جائے
جتنے ممکن تھے جتن ہم نے کئے ہیں لیکن
وہ جدائی پہ مصر ہے تو جدا ہو جائے
پھر سے سیراب کرے روح مری ، پیار ترا
دل کے صحراؤں پہ ساون کی گھٹا ہو جائے
ہم نے سوچا تھا تجھے بھول کے جینے کا مگر
دل کی مرضی ہے ترے غم میں فنا ہو جائے
ہم ترے غم سے تعلق کو نبھائیں گے سدا
چاہےاب ہم کو یہ جینا بھی سزا ہو جائے
ہم ترے حکم کو تسلیم کیئے لیتے ہیں
اس سے پہلے کہ کوئی اور خطا ہو جائے
کچھ تو کلثوم توازن بھی محبت میں رہے
اس کو اتنا بھی نہ چاہو کہ خدا ہو جائے