الفت کا دعوے دار ہے رکھتا بھی ہے انا
اس کا یہی انداز تو اچھا مجھے لگا
ایسے ملا ہے زیست میں وہ جیسے پوری ہو
رو رو کے رب سے کعبے میں مانگی ہوئی دعا
اس کا کمال ذہن وہ سب کچھ سمجھ گیا
خاموشیوں میں ڈوبی ہوئی تھی مری صدا
گھائل کیا تھا جس نے مرے دل کو پہلی بار
اب تک ہے یاد مجھ کو وہ شوخی بھری ادا
اس کی ہنسی سے چاروں طرف پھول کھل گئے
چھو کر بدن کو اس کے مہکنے لگی ہوا
وہ حسن بے مثال جو آ جائے چمن میں
زاہد اسے گلاب بھی کہتے ہیں مرحبا