اس کی یاد جو دل میں مہک جائے
زمانہ پل بھر میں سمٹ جائے
وہ چلے تو اسکی کمر کے بل ہائے
جیسے آلوچے کی شاخ لچک جائے
گھٹاؤں سی زلفوں کا بکھرا پن
جیسے چاند سے بدلی لپٹ جائے
پُر رس ہونٹوں کی سرخی خدارا
کہ کلی بھی شرما کے دُبک جائے
وہ بولے تو اُس کا حسن بیاں فیصل
جیسے بانسری کی دھن لہک جائے