اس کے کوچے کے کہاں تک کوئی چکر کاٹے
اب سبک دوش کرے یوں ، کہ مرا سر کاٹے
صبح آلام ، شب غم، کوئی کیوں کر کاٹے
دن مصیبت کے کہاں تک دل مضطر کاٹے
بے ستوں سے یہ ابھرتی ہے صدائے شیریں
کوئی فرہاد بنے، تیشے سے پتھر کاٹے
اس سے پوچھے کوئی ایام اسیری کا عذاب
زندگی اپنی جو صیاد کے گھر پر کاٹے
نہ ملا تو، نہ ملاقات کی صورت نکلی
مدتوں ہم نے ترے شہر کے چکر کاٹے
زلف وہ سانپ، کہ لوٹے ہے ترے قدموں پر
غیر کے شانے پہ بکھرے تو برابر کاٹے
موت اچھی کہ پس مرگ سکوں ملتا ہے
زندگی کون شب و راز تڑپ کر کاٹے
ایسے وحشی کا اگر ہو تو ٹھکانا کیا ہو
دشت میں جس کو نہ چین آئے، جسے گھر کاٹے
ساقی کوثر و تسنیم سے نسبت ہے نصیر
کیوں نہ دنیا مرے میخانے کے چکر کاٹے