اسے دیکھوں تو دل کو قرار آ جائے
وہ مسکرائے تو خزاں میں بہار آ جائے
اک طبیب ہے اس شہر میں، وہ کرتا ہے کرشمہ
جو کوئی بھی ہو دل کا بیمار آ جائے
اک بار تو بنا مجھے ان زلفوں کا اسیر
پھر کافر ہو جو ہو کے فرار آ جائے
طاق راتوں میں مانگی ہے یہ دعا میں نے
کہ جب بھی پکاروں، میرا دلدار آ جائے
فرخ آتا نہی یقین مجھے اوروں کے سچ کا اور
وہ جھوٹ بھی بولے تو مجھے اعتبار آ جائے