اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میں نے ہر رنج سہا یار منانے کے لیے
حالِ دل دیدہء پرنم سے سنانے کے لیے
اشک بیتاب تھا رخسار پہ آنے کے لیے
وہ کبھی چھو کے سراپا مرا خوشبو کر دے
وہ کبھی آنچ دے فرقت کی جلانے کے لیے
ٹوٹ جائے نہ کہیں میری وفا کا بندھن
ایسے روٹھا نہ کرو مجھ سے زمانے کے لیے
آ کسی روز مرا ہجر مکمل کر دے
آ مرے ضبط کی دیوار گرانے کے لیے
ہجر کی دھوپ میں مرجھا گئے خواہش کے گلاب
نامرادی ہے بچی دل میں اگانے کے لیے
کوزہ گر ٹوٹ گیا ہوں مجھے یکجا کردے
ایک پیکر تو ہو دنیا کو دکھانے کے لیے