ہوکے احساس کی خوشبو سے معطّر نکلا
میرا ہر لفظ تری ذات کو چھو کر نکلا
گلشنِ دل کو مرے ایسے اجاڑا اس نے
اشک پتھرایا ہوا آنکھ سے باہر پر نکلا
ہجر نے تیرے مری عمر بڑھا دی اتنی
ایک لمحہ کئی صدیوں کے برابر نکلا
میں مگر پیاس کی شدت سے ہی مر جاؤں گا
جو تری ذات کے صحرا سے نہ باہر نکلا
ایک آنسو نے مرے ضبط کا بندھن توڑا
وقتِ رخصت جو مری آنکھ سے بہہ کر نکلا
اب بھلا کون کرے اس سے مرے خوں کا حساب
میرا قاتل ....مرا پیارا مرا دلبر نکلا
گردشِ وقت سے لڑ کر مجھے احساس ہوا
دہر کا غم تو غمِ یار سے بڑھ کر نکلا