اشکوں سے کر بھی لوں میں اگر آنکھ نم یہاں
یہ سنگ دل کبھی نہ کریں گے کرم یہاں
مقتل بنا ہوا ہے، تُو اے شہر آرزو
کس کو خبر ہوئی تری، کس کو ہے غم یہاں
خوں آرزو کا میری نہ لایا کوئی بھی رنگ
آواز کس کو آئی، جو ٹوٹا بھرم یہاں
لقمہ غریب کا ہو تو بھاری ہے جیب پر
مہنگے نہیں ہزار میں شیشے کے دم یہاں
الجھا ہوا ہے اپنے ہی گھربار میں ہر ایک
سلجھانے کون آئے گا زلفوں کے خم یہاں
اظہر تو قافلے سے الگ کیوں ہے چل رہا
تجھ کو خدا کا واسطہ، روکو قدم یہاں