تیرے سوا اور کچھ نہ چاہیے مجھے
مریض محبت ہوں آپ بچائیے مجھے
میری چاہت کو ٹھکرا نہ دینا
غم کو میرا ساتھی بنا نہ دینا
نہ جانے غموں سے کیسےلڑ پاؤں گا
تیری جدائی سے میں تو مر جاؤں گا
اس کی آنکھوں سے اک سمندر جاری ہو گیا
مجھ پر بھی سکتہ سا طاری ہو گیا
جزبات کے سمندر میں وہ بہنے لگی
اپنی سسکیوں کو تھام کر وہ کہنے لگی
تقدیر نے مجھ پر بڑے ستم ڈھائے ہیں
زندگی بھر دکھ ہی دکھ پائے ہیں
سکھ کا ایک سانس تک نہیں لیا میں نے
اس جیون کو اک بوجھ کی مانند جیا میں نے
تیرے سینے میں محبت کا جیسا سمندر ہے
ویسی ہلچل میرے بھی دل کے اندر ہے
سچے پیار کے خواب دیکھے ہیں
زندگی بھر بے حساب دیکھے ہیں
اب تیری زندگی میں آنا چاہتی ہوں
تیرے سوا ہر شے کو بھول جانا چاہتی ہوں
پھر ہم اک دوجے کی بانہوں میں کھو گئے
بے درد دنیا سے بے خبر ہو گئے