اب سمجھ میں آیا ہمارے رشتے میں اعتبار کم تھا
پانے کی چاہت زیادہ مگر پیار کم تھا
میرا خیال تھا تیرے اپنوں میں خاص ہوں میں
تجھ پے حق تھا میرا ضرور مگر اختیا ر کم تھا
تجھ سے بچھڑ کے زندگی میں اتنا فرق آیا
بے چینیاں زیادہ تھی اور قرار کم تھا
تیرے نام سے لوگ مجھے بُلایا کرتے تھے
اور تم کہتے ہو کہ محبت کا اظہار کم تھا
میرے شہر کے شجر میرے غم میں شریک تھے
بے رنگ تھے بہار میں بھی سنگار کم تھا
تجھے فرصت ہی کہاں تھی اوروں سے محفل میں
تنہا کھڑا تھا میں اِک کونے میں استقبال کم تھا
عید پے بھی میرے آنگن میں خوشی نہ تھی
اُس روز بھی تری یاد کا ماتم تھا تہوار کم تھا
ترے بارے میں جب سے لکھنا شرو ع کیا
تصور میں تم ہی تم رہے کسی اور کا خیا ل کم تھا
تری کومل ہتھیلی میرے نام سے سجتی تھی
اب ہے کسی اور کا نام میرا نام نہا ل کم تھا