اغیار کا ہوا ہے طرف دار آجکل
اڑتا ہے کن ہواؤں میں دلدار آجکل
ہوتی ہے گفتگو پس دیوار آجکل
دیتے ہیں نت نئے ہمیں آزار آجکل
غمزے وہ الحفیظ ، تبسم وہ الاماں !
ہے ایک قہر حسن کی سرکار آجکل
ان کی ادائے ناز قیامت کی ترجماں
یارو ! غضب ہے شوخیء گفتار آجکل
ہر ہر قدم پہ فتنے اٹھائے چلی گئی
مستی میں ہے وہ چشم فسوں کار آجکل
ہم لوگ کب کے دیر و حرم سے گزر چکے
چھوٹے نہیں ہیں سبحہ و زنار آجکل
کس کو سنائیں درد و الم کا یہ ماجرا
ملتا نہیں ہے غم کا خریدار آجکل !
کردار میں فریب، سخن مصلحت، دروغ
باقی کہاں ہے بات کا معیار آجکل
دشت جنوں میں لائی ہیں کچھ ایسے وحشتیں
بھاتے نہیں ہمیں گل و گلزار آجکل
رومی کی بات کا نہ برا آپ جانئے
رہتا ہے وہ تو خود سے بھی بیزار آجکل
اپنا یہی ہے اب تو شب و روز مشغلہ
رومی کے پڑھتے رہتے ہیں اشعار آجکل