میرے افسانے کا کوئی عنوان نہیں ہے
مجھے اس سے محبت ہے جس سے پہچان نہیں ہے
وہ یہاں سے جانے کا نام نہیں لیتے
یہ میرا دل ہے کرائے کا مکان نہیں ہے
اس کے عشق میں اپنی ہستی مٹا دی
میں وہ جسم ہوں جس میں جان نہیں ہے
اسے بھول جاؤں ایسا ممکن نہیں ہے
مگر اسے پانا بھی تو آسان نہیں ہے
کاش وہ میری زندگی میں چلی آئے
اس کے سوا اور کوئی ارمان نہیں ہے
اس تنہائی میں کس کو آواز دوں
اک تیرے سوا کوئی بھی مہربان نہیں ہے
دنیا کی چالوں کو نہ سمجھ سکے
اب اصغر اتنا بھی انجان نہیں ہے