اقبالؔ و میرؔ و فیض ؔکے اس آستان سے
پردیس میں بھی عشق ہے اردو زبان سے
ان راستوں نے پھر مجھے منزل کی دی نوید
کچھ ساتھ ساتھ خواب ہیں یہ مہربان سے
بکھری پڑی ہیں چار سو لفظوں کی کرچیاں
خائف ہیں اپنی زندگی کے امتحان سے
قوس و قزح کے رنگ ہیں پربت کے سامنے
اترا ہے نور پیار کا پھر آسمان سے
سب کر رہے ہیں پیار کی غلطی کو بار بار
کیوں سیکھتے نہیں ہیں مری داستان سے
اس کے نصیب میں رہیں دنیا کی رونقیں
وشمہ مجھے تو اُنس ہے کچے مکان سے