تیرے روبرو جو کہہ نہیں پاۓ بس سوچ ہی پاۓ
اک وہ بات بھی ہے ہونٹوں پر اپنے جو ہم نہیں لاۓ
خواہش تو ہے تم سے اقرارِ وفا کروں
تیرے انکار کے ڈر سے مگر اظہار کر نہیں پاۓ
کئی بار تجھ کو دل کا حال سنانا چاہا
دل میں ہے جو ہونٹوں کی زبان سے کہنا چاہا
اگرچہ جانے میری تڑپ کو بے قراری کو سمجھے
مسکرا کر بغیر کچھ کہے تڑپاتی ہوئی چلی جاۓ
جاگے جاگے سے کٹتی ہے رات آج کل
کروٹیں بدلتی کرب میں گزرے رات آج کل
سونا چاہوں اگرچہ سو نا پاؤں آج کل
صورت تیری نگاہوں میں ہے نیند آنکھوں میں پھر کیسے آۓ
میرے ساتھ ہو تو موسم دل کا سہانا ہو جاۓ
ساون کی گھٹا اُمنڈ آۓ تپشِ زمانہ دور ہو جاۓ
اک بار اگر مجھ سے چاہت کا وہ اقرار کر دے
شام سے سحر لوٹ آۓ زندگی سہل ہو جاۓ