الفاظ اٹک جاتے ہیں گھُٹن سی لگتی ہے
اپنی حسرت بھی کتنی کٹھن سی لگتی ہے
ساری رات دریچوں پہ دیؤں کا جلنا
حال کیفیت تو وہاں لگن سی لگتی ہے
معمول کی طرح تو ہم بے دستور ہیں بہت
وقت گذرنے پر خودی ستم سی لگتی ہے
باطل پرست کے خیال کیوں چھڑتے ہیں اتنے
ہمیں تو ہر جگہ آسن سی لگتی ہے
شاید کوئی بے خبری تسکین دے گئی
کئی دنوں سے دھڑکن ساکن سی لگتی ہے
ساری مزاج کی ہے بے باکی سنتوشؔ
ورنہ یہ ارضی تو امن سی لگتی ہے