میری خاموشی کو جو الفاظ دیتا تھا
جو ہر بات پر مجھ پر جان دیتا تھا
آج وہ کیسے دور ہو گیا مجھ سے
جو آہٹ کو بھی میری پہچان لیتا تھا
جینے مرنے کے وعدے کیے تھے
تقاضے سب محبت کے پورے کیئے تھ
آج بیٹھا ہے وہ کسی اور کے ساتھ
جو کبھی پہلو میں میرے آرام کرتا تھا
جس کی ہر شام مجھ سے تھی
ہر رات کی آرزو مجھ سے تھی
آج وہ کیوں اتنا غیر ہو گیا
جو صرف میری بات کرتا تھا
بلا وجہ ہی فاصلے آے درمیان
بے وجہ ہی بد ظن ہوا وہ
پہچاننے سے بھی منکر ہے آج
جس کی شناخت میں ہوا کرتا تھا