محبت میں ایسی بے سروسامانی ہے
مصائب سے بھری اپنی زندگانی ہے
علم نہیں تھا کہ الفت میں غم ملتے ہیں
اب محبت کی اصل حقیقت جانی ہے
ہر شب تجھے خوابوں میں دیکھتا ہوں
شاید اسی لیے زیست اب سہانی ہے
جس دن سے بچھڑا ہوں تجھ سے
اس دن سے اشکوں کی روانی ہے
میری زست ہے کسی دشت کی صورت
اس تنہائی کے جنگل میں بیابانی ہے
اے دوست ایک تو ہے بھری دنیا میں
جس نے اصغر کی اصل قدر جانی ہے