گالوں پہ چھائے جاتے ہیں سائے ملال کے
الفت کے طلبگار ١ ذرا دیکھ بھال کے
کیسے کسی کی یاد کا سورج غروب ہو
کرنوں نے تھام رکھے ہیں لمحے وصال کے
جذبے کہ جن کے پیش نہ حاصل نہ ٹھکانہ
ہوتے نہیں اسیر کبھی ماہ و سال کے
پھر یوں ہوا کہ وقت سے آگے نکل گیا
پہلو میں دل کو مدتوں رکھا سنبھال کے
ممکن ہے کناروں کو تو مل جائے ذرا چین
کشتی کہاں پہ جائے گی لہروں کو ٹال کے
اے حسن بے نیاز جو بکھرے ہیں میرے گرد
اتنا بتا جواب ہیں یہ کس سوال کے
یوں بھی ہوا کہ شوق رہا سنگ چھانتا
موقع پرست لے گئے ہیرے نکال کے
اے ذوق آرزو کہاں تشنہ لبی کا غم
پھوٹے ہوئے ہیں چار سو چشمے خیال کے
ہیں اپنی دسترس میں سمے کی مہار بھی
ہم کہ فقیر لوگ ہیں کتنے کمال کے