اللہ بچائے
Poet: Khalid Roomi By: Khalid Roomi, Rawalpindi جو چمن میں نشیمن جلائیں ان بہاروں سے اللہ بچائے
جو نہ مرہم بنیں میرے دل کا، ایسے یاروں سے اللہ بچائے
ہر طرف اب ہیں چھائے اندھیرے، راہ ماروں سے اللہ بچائے
ہیں منافق سبھی یار میرے، مجھ کو یاروں سے اللہ بچائے
ہیں سبھی یہ ہوس کے پجاری، انکی باتوں میں ہے فتنہ کاری
ہے فقیری ہمیں جان سے پیاری، تاجداروں سے اللہ بچائے
ان کو آتے بہت سے ہنر ہیں ، جس طرف وہ ہیں شمس و قمر ہیں
انکی چالوں سے بچنا ہے مشکل، انکے واروں سے اللہ بچائے
ہر قدم جال سا اک بچھا ہے، دل کا آنا بھی آفت بنا ہے
اک مصیبت ہیں، قہر و بلا ہیں ، ان اشاروں سے اللہ بچائے
دیکھنے کی انھیں یہ سزا ہے، چین دل کا سبھی لٹ گیا ہے
اس محبت میں گھاٹا برا ہے، بس خساروں سے اللہ بچائے
ہر گھڑی ہے انھیں بیقراری، رات دن ہے لگی اشکباری
دشمنی اچھی انکی نہ یاری، بادہ خواروں سے اللہ بچائے
گرچہ سر پر مصیبت بنی ہے، پھر بھی غیرت کی چادر تنی ہے
جو ہیں شاہوں کے آگے لگی یہ، ان قطاروں سے اللہ بچائے
انکی نظروں میں ہے کھیل چاہت، انکو بھائی ہے سیر و سیاحت
اشک ہیں بس یہ موتی ہمارے، آبشاروں سے اللہ بچائے
اس جگہ بس ہے غم کے سوا کیا، دہر میں آکے رومی ! ملا کیا ؟
یہ نظارے مبارک انھیں ہی، ان نظاروں سے اللہ بچائے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






