الم میری کہانی ہے اداسی ہے زباں میری
تمھیں افسردہ کر دے گی غموں کی داستاں میری
پڑے ہیں تیری آس امید پر ہی تیرے شیدائی
کبھی تو سن ہی لے گا آہ و فریاد آسماں میری
نہ ہوتی کاش اس کے ساتھ ملنے کی کوئی صورت
وہ دل بھی لے گئے ہیں لے گئے ہیں ساتھ جاں میری
نگاہِ مست میں کاجل جو پھیلے تو یقین آئے
سنا ہے درد دیتی ہے اسے آہ و فغاں میری
یہ دیکھا ہے کہ اکثر عشق میں ایسے بھی ہوتا ہے
کہیں جلتی ہو آتش ذات دیتی ہے دھواں میری
میں شہر ِ عشق کا محروم قسمت وہ مسافر ہوں
نہ بے داد بتاں میری نہ دادؔ دوستاں میری