امانت
Poet: fauzia By: fauzia, rahim yar khanالفاظ کا قحط تو نہیں پڑا ہوا پھر
کیوں ذخیرہ الفاظ کاگودام خالی ہے
اوپر سے پہلی ملاقات
اور ملن کی سرمئی رات
کیوں انجانی سی الجھن میں
الجھ گئی ہوں
خود سے بیگانی ہورہی ہوں
یہ نٹ کھٹ کان کا جھمکا
جھوم جھوم کرپیا ملن کی
منادی کر رہا ہے
اور یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باتونی ماتھے کا جھومر
کہہ نہ دے من کی بات پیا سے
چمکتی نتھلی چہرے کی
حیا سے دھک رہی ہے
ہونٹوں کی گالاہٹمیری بے ترتیب
سانسوں سے اور گالابی ہورہی ہے
کیسے چھپاوں اپنی بے چینی
کوئی سکھی سہیلی
پاس نہیں جو سلجھائےالجھن
یہ لال گھونگھٹ
میرا ساتھ دے گا
حیا سے سرخ ہوتے
چہرےکو چھپالونگی
مگر مہندی لگے ہاتھ
جن پہ ان کہ نام کی
مہندی لگی ہے
کیسے چھپاوںگی نظروں سےانکیاسی حنائی مہک ان جزباتک کو بےتاب کردگی
الفاظ کا قحط تو نہیں پڑا ہوا پھر
کیوں ذخیرہ الفاظ کاگودام خالی ہے
اوپر سے پہلی ملاقات
اور ملن کی سرمئی رات
کیوں انجانی سی الجھن میں
الجھ گئی ہوں
خود سے بیگانی ہورہی ہوں
یہ نٹ کھٹ کان کا جھمکا
جھوم جھوم کرپیا ملن کی
منادی کر رہا ہے
اور یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باتونی ماتھے کا جھومر
کہہ نہ دے من کی بات پیا سے
چمکتی نتھلی چہرے کی
حیا سے دھک رہی ہے
ہونٹوں کی گالاہٹمیری بے ترتیب
سانسوں سے اور گالابی ہورہی ہے
کیسے چھپاوں اپنی بے چینی
کوئی سکھی سہیلی
پاس نہیں جو سلجھائےالجھن
یہ لال گھونگھٹ
میرا ساتھ دے گا
حیا سے سرخ ہوتے
چہرےکو چھپالونگی
مگر مہندی لگے ہاتھ
جن پہ ان کہ نام کی
مہندی لگی ہے
کیسے چھپاوںگی نظروں سےانکی
اسکی حنائی مہک ان
کےجزباتک کو بےتاب کردگی
سنہری چوڑیاں اور مہکتاگجرا
ان کے خیالوں کو مہکا دے گا
پل پل بڑھتی دھڑکن سن لیں گے پیا
یہ نہ روکی جائےگی نہ چھبائی جائے گی
کتنی کملی ہوں
سارے گہنے پیا نام کہ پہن ان سے چھپاونگی
اور یہ دل کاگہنہ
جسکانگینہ پیانام سے چمکتا ہے
ان کہ نامکردیا تھا
سب گہنوں سےپہلے
میں ہوئی تھی ان کے نام
آج خود سمیت
ہر امانت
لوٹادونگی
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






