Poetries by امین علی
دوستی اک آوارگی میں یوں ہی دل کا سکوں کھو گیا
دیکھا ہو جیسے کسی سمندر میں دریا سمو گیا
یاروں کو تھا گماں کہ وقتِ وداع خوب ہوگا مزا
پاگلوں بھرم یہی رہتا مگر اشکوں نے کیا بدمزا
عالم وہ اب نہیں، جو کبھی تھا اس کہانی میں
یار ہو رہے جدا، بہتے ہیں اشک روانی میں
تلخ تھے لمحے مگر بھلا نہ سکے ہم وہ داستان
یار بنے تم تو مسکراہٹ بھی ہوئی بے نشان
ہے آرزو کہ تم کو خدا بخشے زیست ویسی
ہم یکجا رہتے، پر کہاں قسمت تھی ایسی
امین علی
دیکھا ہو جیسے کسی سمندر میں دریا سمو گیا
یاروں کو تھا گماں کہ وقتِ وداع خوب ہوگا مزا
پاگلوں بھرم یہی رہتا مگر اشکوں نے کیا بدمزا
عالم وہ اب نہیں، جو کبھی تھا اس کہانی میں
یار ہو رہے جدا، بہتے ہیں اشک روانی میں
تلخ تھے لمحے مگر بھلا نہ سکے ہم وہ داستان
یار بنے تم تو مسکراہٹ بھی ہوئی بے نشان
ہے آرزو کہ تم کو خدا بخشے زیست ویسی
ہم یکجا رہتے، پر کہاں قسمت تھی ایسی
امین علی
صدائے عشق مکمل رکھنا ہو "عشق" تو ادھورا چھوڑ دو
دل بولا تیری حمایت میں، یہ جھگڑا چھوڑ دو
جہاں لے مانگ بندے، حکم یہی ہوا یار چھوڑ دے
دستِ طلب سے ہاتھ ہٹا، جو یار نہیں، دل چھوڑ دے
کچھ ایسا ہم میں اور اُن میں فرق نمایاں ہو گیا
سفید رنگ اُن کو ملا، ہمیں اندھیرا ہو گیا
جو لب پہ نہ لایا، وہ رازِ الفت معلوم انہیں
کیا چاہتا ہے دل سے آدم، سب معلوم انہیں
کتابوں کی مانند تھا، کسی بستے میں پڑا ہوا
نہ پھول تھا، نہ خار تھا، بس اک خط جلا ہوا امین علی
دل بولا تیری حمایت میں، یہ جھگڑا چھوڑ دو
جہاں لے مانگ بندے، حکم یہی ہوا یار چھوڑ دے
دستِ طلب سے ہاتھ ہٹا، جو یار نہیں، دل چھوڑ دے
کچھ ایسا ہم میں اور اُن میں فرق نمایاں ہو گیا
سفید رنگ اُن کو ملا، ہمیں اندھیرا ہو گیا
جو لب پہ نہ لایا، وہ رازِ الفت معلوم انہیں
کیا چاہتا ہے دل سے آدم، سب معلوم انہیں
کتابوں کی مانند تھا، کسی بستے میں پڑا ہوا
نہ پھول تھا، نہ خار تھا، بس اک خط جلا ہوا امین علی
فنا ہونے کو پڑی ہے اک عمر آخر فنا ہونے کو پڑی ہے اک عمر آخر
ہونا ہی تھا یار ہوگیا تم سے، عشق آخر
میرا دل ہی نہیں، ہے اک پری وش پریشاں
کچھ بلا کی حالت تمہاری بھی ہے آخر
وہ جو تمہیں اک پل نہیں ناز و ادا سے فرست
دیکھو یہ سیاہ بخت کب سے تیرا منتظر ہے آخر
میں بدبخت کمبخت ہر لحاظ سے بدلحاظ ٹھرا جانا
تجھے سوچوں تو جانا بن ہی جاتا ہوں انساں آخر
محبت بھی کہاں؟ بخت میں میرے ماہجبیں
ورنہ یوں بھی کیسے ممکن تو بھی نہ ملے آخر
محمد امین علی
ہونا ہی تھا یار ہوگیا تم سے، عشق آخر
میرا دل ہی نہیں، ہے اک پری وش پریشاں
کچھ بلا کی حالت تمہاری بھی ہے آخر
وہ جو تمہیں اک پل نہیں ناز و ادا سے فرست
دیکھو یہ سیاہ بخت کب سے تیرا منتظر ہے آخر
میں بدبخت کمبخت ہر لحاظ سے بدلحاظ ٹھرا جانا
تجھے سوچوں تو جانا بن ہی جاتا ہوں انساں آخر
محبت بھی کہاں؟ بخت میں میرے ماہجبیں
ورنہ یوں بھی کیسے ممکن تو بھی نہ ملے آخر
محمد امین علی
میرا جرم الفت، افت بھی شاعرا سے جب جدا ہو تو بھلا کیوں نہیں دیتے
دینے کو کچھ نہیں تو سزا کیوں نہیں دیتے
میرا جرم ہے الفت، الفت بھی شاعرا سے
لکھے جو میرے نام سے ہیں چند وہ اشعار مٹا کیوں نہیں دیتے
ہے یہ باولا امین فقط دید پر ہی خوش تو
کہو نہ پھر یہ عنایت کیوں نہیں کرتے
کل مجھ سے مخاطب تھے جو جاناں جاناں
آج ہم سے وہ کلام کیوں نہیں کرتے
میں تھا کہ کوششیں کرتا مسلسل کسے خوش کرنے کی
وہ جو خود اپنے اختیار میں نہ تھے امین تیرے کیا ہوتے محمد امین علی
دینے کو کچھ نہیں تو سزا کیوں نہیں دیتے
میرا جرم ہے الفت، الفت بھی شاعرا سے
لکھے جو میرے نام سے ہیں چند وہ اشعار مٹا کیوں نہیں دیتے
ہے یہ باولا امین فقط دید پر ہی خوش تو
کہو نہ پھر یہ عنایت کیوں نہیں کرتے
کل مجھ سے مخاطب تھے جو جاناں جاناں
آج ہم سے وہ کلام کیوں نہیں کرتے
میں تھا کہ کوششیں کرتا مسلسل کسے خوش کرنے کی
وہ جو خود اپنے اختیار میں نہ تھے امین تیرے کیا ہوتے محمد امین علی
یہی تو ہیں وہ لیلہ کی جو مجنوں بنائیں آنکھیں اور ہاں! پسند ہیں مجھے وہ حجابی آنکھیں
کرے ہیں پریشاں، دیکھیں جو اک نظر آنکھیں
کہیں کہتی تو ہیں، اشاروں اشاروں میں کچھ
مجھ سے پھر نگاہیں بھی چراتی ہیں وہ آنکھیں
یقینن میری الجھن کو بھڑا رہی ہیں، اب
ہاں جھکی ہوئی تیری، وہ کمال آنکھیں
آنکھوں کی سمجھ بھلا میں بھی رکھوں ہوں، اب
یہی تو ہیں وہ لیلہ کی، جو مجنوں بنائیں آنکھیں محمد امین علی
کرے ہیں پریشاں، دیکھیں جو اک نظر آنکھیں
کہیں کہتی تو ہیں، اشاروں اشاروں میں کچھ
مجھ سے پھر نگاہیں بھی چراتی ہیں وہ آنکھیں
یقینن میری الجھن کو بھڑا رہی ہیں، اب
ہاں جھکی ہوئی تیری، وہ کمال آنکھیں
آنکھوں کی سمجھ بھلا میں بھی رکھوں ہوں، اب
یہی تو ہیں وہ لیلہ کی، جو مجنوں بنائیں آنکھیں محمد امین علی
وہ آنکھیں بیتاب نہیں میں ہاں، مگر وہ آنکھیں
تیرا یہ پری وش ہے گُماں میں کہ
ارے! دیکھے گی ادھر کو بھی، وہ آنکھیں
کی گفتگو مجھ سے تھی، حجابوں میں ابھی
ہاں،مگر نقش ہے ذہن میں میرے، وہ آنکھیں
اور پھر، یہ حجابی گلابی جو بھی، لحجہ جناب کا
بھول تو سبھی گیا، مگر ہائے وہ آنکھیں
لکھنے کو ہوں ایک غزل خاتون پر
مگر ہٹتی نہیں منظر سے،وہ آنکھیں
کلاس میں تیرا وہ ذکر کسی بات کا
سنا ہی نہیں کچھ، دیکھتا رہا میں وہ آنکھیں
حجابی کئیں ہیں مگر ، وہ آنکھیں
بیتاب نہیں میں ہاں، مگر وہ آنکھیں امین علی
تیرا یہ پری وش ہے گُماں میں کہ
ارے! دیکھے گی ادھر کو بھی، وہ آنکھیں
کی گفتگو مجھ سے تھی، حجابوں میں ابھی
ہاں،مگر نقش ہے ذہن میں میرے، وہ آنکھیں
اور پھر، یہ حجابی گلابی جو بھی، لحجہ جناب کا
بھول تو سبھی گیا، مگر ہائے وہ آنکھیں
لکھنے کو ہوں ایک غزل خاتون پر
مگر ہٹتی نہیں منظر سے،وہ آنکھیں
کلاس میں تیرا وہ ذکر کسی بات کا
سنا ہی نہیں کچھ، دیکھتا رہا میں وہ آنکھیں
حجابی کئیں ہیں مگر ، وہ آنکھیں
بیتاب نہیں میں ہاں، مگر وہ آنکھیں امین علی