اُن جھیل سے گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
اس جھیل کنارے پل دو پل
اک خواب کان یلا پھول کھلے
وہ پھول بہادیں لہروں میں
اک روز کبھی ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہیں ان آنکھوں میں
اس بسرے پل کی یاد تو ہو
اُن جھیل سے گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہو جائے
اس جھیل کنارے پل دو پل
وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے
وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
اُن جھیل سے گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو