درد سے دل کا ہے حصار آجاؤ
وقت بدلے گا اعتبار آجاؤ
رو دئیے میرے حال پہ پنچھی
چگنے پڑے ہیں جب انتظار آجاؤ
دھوکہ اکثر ملے ہے اپنوں سے
اپنوں سے تھوڑا سا غبار آجاؤ
تاکہ نکلیں نہیں مرے آنسو
درد سہنے کا غمگسار آجاؤ
یاد کے اشک ہیں اے ہم نفسو
کیسے کرنا انہیں شمار آجاؤ
میرے غم کا خراج لے جانا
جب کبھی لوٹ کر بہار آجاؤ
زندگی ہم ترے بہانے سے
موت کا قرض ہے اتار آجاؤ
توڑ دیتے جو حوصلہ وشمہ
ان خیالوں سے ایک بار آجاؤ