مسرتوں نے باندھ کے گھنگھرو کیا رقص میرے آنگن میں
ان رنگیں پلوں کو ان حسیں رتوں کو کہو رک جائیں تھم جائیں
سنا ہے آج کی شب بزم میں جلوہ افروز ہو گے وہ بھی
درخواست ہے شب کے تاروں سے ماہتاب سے رک جائیں تھم جائیں
کیا مدتوں انتظار ہو دیدار یار اور پیش کریں ہم سجا کے
دل کے ٹکڑے ایسے میں دھڑکنوں سے کہنا رک جائیں تھم جائیں