ان کہی جو کہی نہ گئی ہم سے کبھی
وہ سر عام زبان پر یوں آجائے گی
جو چھپا کر رکھا تھا دل میں کبھی
بھید سارے افشاں بےخودی کر جائے گی
جو جرت پیدا ہوسکی نہ برسہا برس
وہ ہمت میری بزدلی یوں کر دکھائے گی
حسرتوں کے میکدے میں اب شاید
یاس ساقی بن کر چھا جائے گی
چاندنی رات ہے اور یہ تنہائی چار سو
کیا ہونہی روتے یہ رات بھی گزر جائے گی
ستارے سارے چن لو دامن میں فرح بی بی
ابھی رات باقی ہے پھر صبح ہو جائے گی