ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا
Poet: نصیر الدین نصیر By: Muhammad Zubair, Chichawatniان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت ، وہ باتیں ، وہ زمانا دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا
زندگی گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا
کچھ نئی بات نہیں حسن پہ آنا دل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا
وہ محبت کی شروعات ، وہ بے تھاشہ خوشی
دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا
دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یارب ! نہ لگانا دل کا
ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے
اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا
میرے پہلو میں نہیں ، آپ کی مٹھی میں نہیں
بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ،ٹھکانا دل کا
وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے
“ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا “
خوب ہیں آپ بہت خوب ، مگر یاد رہے
زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا
بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں
آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا
نقش بر آب نہیں ، وہم نہیں ، خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا
حسرتیں خاک ہوئیں، مٹ گئے ارماں سارے
لٹ گیا کوچہء جاناں میں خزانا دل کا
لے چلا ہے مرے پہلو سے بصد شوق کوئی
اب تو ممکن نہیں لوٹ کے آنا دل کا
ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






