ان کے حلق سے گلہ نہ اٹھتی اگر میرا جینہ دیکھتے
ہم اپنی حالت کے حلقہ بگوش ان کا کیا کرتے
حالت زار سے کہدیا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں
دل کے مختاروں کو آخر بھی کس طرح روکتے
میں نے خوشحال گلستانوں میں غم کا بیج بویا ہے
اِن کھاردار پودوں سے بھلا کون سے پھول کھلتے
امروز درد سہکر بھی اطمینان کی زندگی گذاری
اگر زباں کو زحمت ہوتی تو لحجہ بھی بدلتے
پشیمانی کے زندانوں میں بڑا دیرینہ رہہ گیا تھا
پاؤں میں پڑی تھی زنجیر دروازے کیسے کھلتے
وہ گمنام خدا عصوبت میں بھی چھوڑ گیا سنتوشؔ
کبھی آواز بھی آتی تو ارضی کی خالی جگہ بھرتے