کھل کے کہہ دو جو بھی کہنا ہے تمھیں
مسترد ہونے کی عادت ہے مجھے
ہائے ظالم نے ذرا سا بھی تکلّف نہ کیا
ہم نے چاھی جو اجازت تو اجازت دے دی
کچھ اہلِ چمن ہی مرے دکھ درد کو سمجھے
یہ باغ مرے سامنے ویران ہوا ہے
میں تو تھا اک بزدل عاشق
اس نے ہجر کی ہمّت کی تھی
ہم اڑے بھی تو قید ہی میں رہے
زندگی بے سلاخ پنجرہ ہے
کوئی یہاں سے مجھے کس طرح نکالے گا
ترے خیال کی جاۓ اماں میں رہتا ہوں
ان اندھیروں میں کوئی تو میرا ہم راہی بنے
جب دکھائی کچھ نہ دے آواز بینائی بنے
ملا وہ کم سخن تو یہ سمجھ آیا
محبّت کی زباں خاموش ہوتی ہے
دل نے ایسے تجھے پکارا ہے
گونج اٹھا وجود سارا ہے
یہ کیا کہ تم نے دونوں کو سمجھ لیا ہے ایک سا
یہ کیا کہ ہجر کچھ نہیں یہ کیا وصال کچھ نہیں
تم چائے کا وعدہ کر دیکھو
میں بھاگ آؤں گا آفس سے
تجھ تک کیسے پہنچوں میں
خود کو وائرل کر لوں میں؟
خدا کرے کہ وقت نے چھپن چھپائ کھیلی ہو
ہٹے جو پردہ ہجر کا تو کھلکھلاتے تم ملو