چہرے پر ہنسی کا اوڑھ کر میں
ہر روز اک نئی موت مر رہی ہوں
آج اک صدی گزر گئی ہے کہ
میں تیرے دیدار کو ترس رہی ہوں
ایسی کیا خطا ہو گئی مجھ سے کہ
مجھے خود سے یوں جدا کر دیا
تیرے ہجر میں دیوانوں سا حال اک بار تو پلٹ دیکھ
میں کیسے تل تل مر رہی ہوں
ایسا نہ ہو کہ کہیں دیر ہو جائے
تیرے انتظار میں یہ جسم خاکی مٹی کا ڈھیر نہ ہو جائے