دھوپ چھاوں سا انداز لئے
ایک سلونی شام سی لڑکی
سپنے اپنے رہن کیے
خوشگما نی کا لبادہ اوڑھے
انتظار کا پیراہن لپیٹے ہوئے
تھی مجسم راہ یار مگر
وقت کا دریا بہتا گیا
اُمید کا جگنوبھی ماند پڑتا گیا
شاخوں پہ آ گیا سونا پن بھی
موسموں کی آنکھ مچولی
رُخ بدلتی گئی
مگر لوٹ کر نہ آ سکا
راہ بھولا ہے جو پردیسی
مہتاب آنکھوں کی خوشیاں لے کر
انتظار کا دامن تھما گیا تھا