انتہائے عشق دیکھو ہم کہاں تک آ گئے
مدتوں صحر ا پہ چل کے سائباں تک آ گئے
ایسی خوش رنگ محفلوں سے دور رہتے تھے کبھی
ہے کرم محبوب کا دیکھو یہاں تک آ گئے
آندھیاں ، طوفان، دلدل سے گزر جانے کے بعد
”ہم محبت میں ستاروں کے جہاں تک آگئے“
تھی اسے عشق ومحبت سے بڑی نفرت مگر
پیار کے کلمات اب ا ن کی زباں تک آگئے
’زہر لگتے ہو ‘ مجھے اکثر کہا کرتے تھے جو
’جان سے پیارے ہو تم‘ وہ اس بیاں تک آگئے
آج کل پلکوں کے سائے میں ہمیں رکھتے ہیں وہ
کتنے خوش قسمت ہیں ہم بھی آشیاں تک آ گئے
سنگ مرمر کے بنے محلوں میں رہتے تھے جو لوگ
آج چل کر خود مرے کچے مکاں تک آ گئے
منزلِ مقصود پانا معجزے سے کم نہیں
دل ، جگر، گردہ لُٹا کر ہم یہاں تک آگئے
وادی عشق و محبت میں کئی برسوں سے یاد
تھے زمیں پر، شکر ہے اب آسماں تک آگئے