نہ جانے اس نے کیسے جذبوں کے مفاہم رکھے
ملے بھی ہم سے اور فاصلے بھی باہم رکھے
دیکھ آشفتہ سرئی عشق۔نکلا ہے رہگزار محبت میں
بے زادوبےساماں،ہتھیلی پہ وفا کی شبنم رکھے
آے تو سہی، برسر نمک پاشی ہی سہی
کھلے اس امید پہ میں نے اپنے زخم رکھے
بہت منفرد انداز مسیحائی ہے کاشف اس کا
نوک نشتر سے مرے زخموں پہ مرہم رکھے