اب وُہ طوفان ہے نہ شور دریاؤں جیسا
دل کا عالم بھی ہے، بس خلاؤں جیسا
کاش وُہ لوٹا دے میرا احساس سرفرازی
میں اُڑتا پھروں پھر سے ہواؤں جیسا
پھر اُس کی یاد کا دیا جلنے نہ پائے
بن کے رہ نہ جاؤں سایہ، اندھیروں جیسا
نام سے اُس کے، دل کھاتا ہے ہچکولے
جاوید انداز ہے اُسکا سمندری لہروں جیسا