راستوں میں الجھتے جاتے ہیں
سارے سائے سمٹتے جاتے ہیں
شہر خاموشاں میں گم رہے اکثر
تیری گلی میں بھٹکتے جاتے ہیں
ناں ہو مشکل تو بات کر لیجئے
لئیے سامان بڑھتے جاتے ہیں
شام کو ایسی اب چلی ہے ہوا
سارے دئیے بجھتے جاتے ہیں
ہجر کے خوف سے پلکیں بھیگیں
غم کے بادل برستے جاتے ہیں
بے خودی میں آگ کو چھو لیا
انگاروں پے سلگتے جاتے ہیں