انگڑائی لے کے مجھ سے رات نہ لیے جدائی ہاں
پیاری ہے مجھے اے شب تیری تنہائی ہاں
تم کیا سمجھو کیا تم جانے بس اب رہنے دو
چاہے دل کے تکڑے ہزار ہوں پر ہونا رسوائی ہاں
اڑتے اڑتے تھک بیٹھے ییں وہ پنچھی بھی ہاں اب
اب کہاں تک پیچھا کرے گا آ صیاد ہرجائی ہاں
وصل کی رات جانے کیوں ضد تھی ان کوجانے کی
وقت سے پہلے ڈوبا تارا ہوئی تاروں کی بھلائی ہاں
آنکھ مچولی کھیلتے ہیں جگنوں پیارے پیارے سے
ہم بس ٹھہرے اک مسافر کیوں نہ ہوں ان کے شیدائی ہاں
توبہ توبہ یہ کیا ہوا بھرا جام گر کے ٹوٹ گیا
جلدی سے جا کے ٹکڑے اٹھاؤ کیا کہی گی خدائی ہاں
آواز روتے روتے بیٹھ گی رولانا نہ اور اب
تم سمجھ کے بھی نہ سمجھو کے میری بات الہی ہاں
دیکھو بس اب رہنے دو نہ دو بڑھاواہ باتوں کو
قسم سے جایں گے ہم روٹھ اگر پھر قسم اٹھائی ہاں
وقت کے بہتے سمندر کا علی کوئی کنارا ہی نہیں
تم بھی سمجھو اور انہیں بھی سمجھاؤں اس میں ہے دانائی ہاں