اور رکھا ہے کیا زمانے میں
آشیاں پیار کا جلانے میں
عہدِ ماضی کی یاد زندہ ہے
میرے دل کے غریب خانے میں
میں تو قیدی ہوں دشتِ فرقت کی
کیا تردد ہے اسکو آنے میں
اُس کی یادوں کی لاش زندہ ہے
دل کی دنیا کے آستانے میں
اک انا ہی تو پاس تھی میرے
وہ بھی چل دی ہوں اب لٹانے میں
اپنا چہرہ ہے مشتہر ہی بہت
غم چھپانے کو ، مسکرانے میں
زہر پی کر بھی اِس محبت کا
درد رہتا ہے ہر فسانے میں
آج اُس کا بھی ہاتھ ہے وشمہ
میری وحشت کو پھر جگانے میں