تیرا خیال میری نظر سے گزار بھی نہیں
دو گھڑی کی بات تھی پاس ٹھہرا بھی نہیں
سزائے موت کا حکم جاری بھی کر دیا حاکم
کوئی معاملہ تری عدالت میں دھرا بھی نہیں
اور مے پلانے کی بات کرتے ہو مارو گے کیا
پہلا نشہ چشمِ یار کا ابھی اترا بھی نہیں
بخش کر کل عالم کی سلطنیں کہا بشر سے
خالق تو ہوں میں مگر جو ترا نہیں مرا بھی نہیں
گردشِ دوراں میں اک بار زیر تو ہوئے ہیں
جتنا زمانے میں ہوں بدنام اتنا برا بھی نہیں
یہ بھی کچھ کم ستم نہیں کہ فراقِ یار میں
ہچکییں بھی لے رہے ہیں کوئی آنسو گرا بھی نہیں
آج مزاجِ یار برہم ہے انہیں نظر نہ آئیو تم
خالی ہی نہ پلٹ جائے جو کاسہ بھرا بھی نہیں
عجب ہی حالت رہی ہماری ساری عمر جہاں
جیا بھی نہیں گیا مجھ سے اور مرا بھی نہیں