حسن کو پر شباب رہنے دو
محرموں سے حجاب رہنے دو
ہاتھ خالی ہیں میری خواہش کے
اور کچھ دن گلاب رہنے دو
روئے روشن کو سامنے کر دو
سب گناہ و ثواب رہنے دو
میرا سب کچھ اس اک سوال میں ہے
کیا ہے اسکا جواب ۔ رہنے دو
میری تقدیر کے اندھیرے میں
یاد کے آفتاب رہنے دو
ایک لمحہ ہی کیا نہیں کافی
عمر بھر کا حساب رہنے دو
رابطہ کچھ نہ کچھ روا رکھو
فاصلوں کے عذاب رہنے دو
اس میں آئے گا نام تیرا بھی
درد کا انتساب رہنے دو
تیری مسکان پہ کرنیں نچھاور
آنسوؤں کی کتاب رہنے دو