حرف کو مصر کا بازار نہ کرنا آیا
مجھ کو جذبات کا بیوپار نہ کرنا آیا
سنا ہے آج وہ الفت کے راہبر ٹھہرے
تمام عمر جنہیں پیار نہ کرنا آیا
تبھی تو سب میرے احباب خفا ہیں مجھ سے
کہ مجھے خوشبوؤں پہ وار نہ کرنا آیا
زخم سہتا رہا میں ہنستے مسکراتے ہوئے
زخم کو حسن سے دوچار نہ کرنا آیا
زیست نے عشق کا دریا اسے دکھلا تو دیا
یہ الگ بات اسے پار نہ کرنا آیا
ایک تو وہ بھی روایات کا پابند رہا
اور کچھ مجھکو بھی اظہار نہ کرنا آیا