کس سفر میں ہیں کہ اب تک راستےہیں تنگ سے
آسماں پہ شمعیں روشن ہیں مگر .. آہنگ سے
کتنی نم ہے آنسوؤں سے یہ صنم خانے کی خاک
یہ طواف گل کے لمحے کتنے آتش رنگ سے
یہ گلستاں ہے کہ چلتے ہیں تمناؤں کے خواب
یہ ہوا ہے یا بیاباں کے قدم کےسنگ سے
ایک بستی عشق کی آباد ہے دل کے قریب
لیکن اس بستی کے رستے کس قدر ہے جنگ سے
آج بھی ہر پھول میں بوئے وفا آوارہ ہے
آج بھی ہر زخم میں تیرے کرم کے ڈھنگ سے
آج گھر کے آئینے میں صبح سے اک شخص ہے
اور کھڑکی میں ستارے شام چلے سنگ سے
رہ گزر کہتی ہے جاگ اے ماہتاب شام یار
ہم سر بازار چلتے ہیں مگر بے ڈھنگ سے
آئنے میں کس کی آنکھیں دیکھتی ہوں وشمہ جی
دو کنول ہیں بیچ پانی میں مگر ہیں بھنگ سے