اُس ستارے میں درخشانی باقی
جیسے تیری میری کہانی باقی
بیقراریوں سے اکثر یہ لگتا تھا
کہ الجھن کوئی اب آنی باقی
تیری امید بھی کیا امید لگی
ہر ایک آنکھ میں تھا پانی باقی
سبھی کوچہ گر گذر گئے شاید
نین میں موج کی روانی باقی
تصور پہ توجہ ہم تمام کر چلے
اپنی تو رہی بے دھیانی باقی
جو پالیا وہ قطرہ ہے سنتوشؔ
دنیا کے کئی رنگ ابہامی باقی