اُس لڑکی میں بات ہی ایسی تھی
جو دیوانہ کیے جاتی تھی
مجھی میں مجھ کو بیگانہ کیے جاتی تھی
ادائیں عجب تھی اُس کا کمال عجب تھا
آنکھوں کے رستے دل میں ٹھکانہ کیے جاتی تھی
وہ لڑکی تھی، جادو تھی یا کوئی پری تھی
مرے دل میں وہ اپنا آشیانہ کیے جاتی تھی
ریشمی زلفیں اُس کی جیسے کوئی گِرتی آبشار
مری بے رونق زندگی کو سُہانہ کیے جاتی تھی
وہ بہار بن کے مری خزائوں میں آئی
وہ لفظ بن کے مری دعائوں میں آئی
اور کومل مزاج مرا عاشقانہ کیے جاتی تھی
ویران گلشن مرا خود بخود بحال ہونے لگا
ناجانے کب مرا شاعرانہ خیال ہونے لگا
نہال وہ لڑکی نظروں سے دل کو نشانہ کیے جاتی تھی