اُس نور لالہ فام پہ افسانے بن گئے
تنہا رتوں کی شام پہ افسانے بن گئے
کھینچی نگاہ شوق سے تصویر یار کی
اندازِ خوش خرام پہ افسانے بن گئے
تقدیرمیں نہیں تھا جو تاخیر ہو گئی
پھر ساقی اور جام پہ افسانے بن گئے
کل شام چاند اترا مرے گلستان میں
امید جیسے کام پہ افسانے بن گئے
وہ نغمہ ساز لہجے میں آواز تھی بلآ
پر درد اس کلام پہ افسانے بن گئے
ضیغم وہ پاس تھا تو بڑا بے نشاں رہا
بچھڑا تو اس کے نام پہ افسانے بن گئے