میرا عروج و زوال کچھ یوں ہے
کبھی آسماں تو کبھی زمیں ہوں
بھیڑ میں بھی اس طرح دیکھائی دیتا ہوں
جس طرح تنہائی میں گوشہ نشیں ہوں
جس کے لیئے شبِ تنہائی میں سجدے کیئے
اُس چاند سے چہرے کی جبیں ہوں
تم یہ بات تسلیمِ دل کرو یا نہ کرو
میں اپنی ہی وفاوَں کا لفظِ یقیں ہوں
جو رستے منزلِ وفا تک لے جاتے ہیں
میں ان ہی رستوں کا اِک مکیں ہوں
شاید تمہیں اِس کا احساس تو ہو گیا ہو گا
ترے آس پاس تو ہوں مگر نہیں ہوں