اُس چلمن سے اڑتی فضا جھار ڈالتی ہے
میرے چہرے پہ بڑے انتشار ڈالتی ہے
انہیں کہدو کہ اپنی حدوں میں رہا کرے
لاحدوں کو صدا تو مار ڈالتی ہے
یہ مغوی ابکہ بس مدھوش دکھتے ہیں
تیری نینوں کی قیاس احتمالی خار ڈالتی ہے
امیدوں سے بھٹکتا کبھی تو آئے گا
وہ ہر روز پرندوں کو جوار ڈالتی ہی
تیری خودی میں کچھ بھی بسا ہو مگر
نگاہ منظروں پہ خوب ڈالتی ہے
یہ جوانی کا جلوہ چھپائے نہیں چھپتا
وہ رُخ پہ چادر ہر بار ڈالتی ہے