پھر ملے ہم، جب بھی بچھڑے ہے کہانی چاہئے
تیری جانب سے جدائی، آنی جانی چاہئے...
مکر ہم کو بھول پن نے مات دی ورنہ تجھے
'دوستوں کی پہلے نیت آزمانی چاہیے "
صورت احوال کی گہرائیاں سمجھے نہ ہم
عکس کی منظر کشی کو مہربانی چاہئے
ہم سمجھ پاتے اداؤں کو تری شائد مگر
کس سفر میں ہیں کہ اب تک آزمانی چاہئے
دل نہ کوئی ٹوٹ جائے اس لیئے خاموش ہوں
جھوٹ سے حاصل نہیں کچھ بدگمانی چاہیے
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں تھا بس تنہا سفر
قافلوں سے راستے میں زندگانی چاہئے
دور تک منزل کہا ں ، نشاں کوئی نہ تھا
اور کہنے کو دلوں میں حکمرانی چاہیے
موت کے منظر کو کوئی دیکھتا ہے غور سے
اُس کا کہنا تجھ سے ملنے کو نہ آنی چاہیے
آس کے پیڑوں میں وشمہ نے جو رکھی تھی لچک
اس سے اچھا کیوں نہیں کہہ پائے رانی چاہیے