کھایا جو زخم ہم نے، وُہ اتنا تازہ بھی نہیں ہے
گہرا ضرور ہے لیکن، اتنا زیادہ بھی نہیں ہے
میری سوچوں کا محور رہی صرف اُسی کی ذات
یہ سچ تو ہے لیکن، کچھ اتنا زیادہ بھی نہیں ہے
نجانے کیوں کھلے در پہ اُٹھ جاتی ہیں نگاہیں اپنی
بے وقت وُہ آتے نہیں اور ملن کا وعدہ بھی نہیں ہے
ہمیں اپنی چاہت پہ ناز، اُسے رہا اپنے حسن پہ غرور
ہماری چاہت سے حسیں وُہ کچھ زیادہ بھی نہیں ہے