اُسے کیسے بتاؤں
کہ
محبت تو نہیں مرتی
مگر
انسان روز مرتے ہیں
بہت تکلیف ہوتی ہے
بجھڑنا کسی کیلئے بھی
برگز آساں نہیں ہوتا
اُسے کیسے بتاؤں میں
اُسے مختلف بھی رہنا تھا
اور
اُسے لوگوں کا بھی ڈر تھا
مگر وہ جانتی سب تھی
کہ
کسی کو خاص رکھنے میں
بہت دشواریاں ہونگی
زمانہ بھی کہے گا
اور
تہذیب بھی دامن تھامے گی
اُسے کیسے بتاؤں
کہ
بناء اُسکے یہاں بھی کچھ نہیں بدلہ
دل اب بھی دھڑکتا ہے
جب اُسکی یاد آتی ہے
کوئی یہ کہیں نہیں سکتا
کہ
کسی کا جانا
کسی کو محسوس نہیں ہوتا
اُسے کیسے بتاؤں میں
مجھے انتظار ہے
تو
صرف اُس گھڑی کا
جب وہ میری ہوگی
وہی تقدیر ہوگیا