اُمید تھی تو، اگرچہ نہ تھی عیاں بالکل
ہُوئی کِرن وہی دِل کی ہے اب نہاں بالکل
کِھلے نہ پُھول ہیں دِل میں، نظردُھواں بالکل
بہار آئی بھی بن کر خَلِش، خِزاں بالکل
کہا ہے دِل کی تسلّی کو بارہا خود سے
ہم اُن کو بُھول چُکے ہیں، مگرکہاں بالکل
جو اُٹھتے دستِ زلیخا ہمارے دامن پر
نہ ہوتی یوسفِ کنعاں سی داستاں بالکل
جَھلک نہ دُور سے کوئی، نہ روشنی کا سُراغ
سِرا سُرنگ کا، آنکھوں سے ہے نہاں بالکل
ذرا سی ہجر میں احساس ہو چلا مجھ کو
مِری حیات یہ، اُس بِن ہے رائیگاں بالکل
نہ اب وہ زخم پہ مرہم، نہ گھر تو آؤ، خلش
بدل چُکا ہے محبّت کا سب سماں بالکل